بے روزگار نوجوانوں کے پریشان والدین

اظہر اقبال بٹ

نوجوان کسی بھی ملک کا سرمایہ  ہوتے ہیں۔ لیکن ایسا  اس وقت ممکن  ہوتا ہے جب ان کے لیے تعلیم و تربیت  کی مناسب  سہولیات  موجو د ہوں ۔ تا کہ وہ اپنا مستقبل سنوار یں   – اپنے ما ں باپ کی خدمت کر سکیں  اور ملک کی ترقّی  میں کردار ادا کر سکیں- تعلیم کے ساتھ ہنر بھی   ضروری ہے  اور ساتھ ہی کام کرنے کا جذبہ بھی ہونا چاہیے–

 ان عوامل کے بغیر نو جوان  ملک کا سرمایہ نہیں بلکہ  بے روزگاروں کا ہجوم ہوتے ہیں  اور ملک کا مستقبل نہیں بلکہ اپنے والدین ، خاندان اور ملک پر ایک بوجھ بن جاتے ہیں۔

کبھی  کسی  نے سوچا  ایسا  کیوں ہے؟  میں ان والدین کی نمائندگی کر رہا ہوں جن کے بچّے بےروزگار ہیں-اورا پنے تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر اپنی زندگی کا یہ پہلا  بلاگ لکھ رہا ہوں -۔ 

مقروض والدین تعلیم اور نوکری   

  ملک میں ہر سال بے روزگار نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کا اضافہ ہو جاتا ہے ۔ ان میں بہت سے واجبی تعلیم والے ہوتے ہیں اور  بہت سے اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہوتے ہیں- کیا  فایٔدہ  ایسی تعلیم کا جسے حاصل کرتے کرتےبچّوں کی   آدھی عمر گذر جاۓ اور والدین قرض لے لے کر فیسیں ادا کریں اور پھر نوکریوں کے لیے دربدر چکر لگانے کے با وجود کچھ حاصل نہ ہو۔  یہ نوجوان کاروبار بھی نہیں کر پاتے کیوں کہ  نہ تو  ان کے پاس تجربہ ہوتا ہے اور نہ ہی  ہم والدین کے پاس سرمایہ  ہوتاہے۔  

 ورکشاپ  میں ہنر سیکھنے والے نوجوان 

دوسری طرف کچھ لوگ  بچپن میں ہی اپنی  اولاد کو   ورکشاپس وغیرہ  میں کام سیکھنے کے لیے بھیج دیتے ہیں- یہ بچّے  نوجوانی تک آتے آتے آمدنی  گھر لانا شروع   کر دیتے ہیں  –  تا ہم  یہ ایک الگ المیہ ہے کہ ایسے  بہت سے بچّے  اپنا بچپن گنوا دیتے ہیں-  یہ  جنسی  ہراسانگی اور نشے  کا شکار ہو  جاتے ہیں اور  ان کی شخصیت کو نا قابِلِ  تلافی نقصان پہنچ چکا   ہوتا ہے ۔

ہنر سکھانے  والے تربیتی  پروگراموں کی ناکامی کی وجوہات

 فنی تعلیم کے فروغ کیلیے بار بار کوششیں کی گئیں – ملک میں فنی تعلیم کے  لیے ٹیوٹا اور نیوٹک  جیسے ادارے بھی قائم ہوۓ –  میٹرک میں کمپیوٹر کا مضمون بھی متعارف کرایا گیا ۔اس کے علاوہ بھی گزشتہ پنجاب اور مرکزی حکومتوں نے بہت سے  اقدامات کیے – نوجوانوں کو ۵۰۰ سے ۲۵۰۰   روپے  تک کے وظائف بھی دیے گئے- حکومت نے     نوجوانوں کووظیفہ دینے کے علاوہ  اس سے کئ گنا  ذیادہ    رقم  ٹیوٹا اور نیؤٹک جیسے اداروں کو دی۔ یہ رقم حاصل کرنے کے لیے  فنی تعلیم کے  بے شمار نجی  اداروں نے  ٹیوٹا  اور نیوٹک کے ساتھ  رجسٹریشن  کروالی  ۔ چھوٹے   چھوٹے  نجی    اداروں نے   گنجائش سے ذیادہ  کئی کئی  کورسز میں داخلوں  کے اشتہارات دیدیے

   ۔ نوجوانوں نے صرف وظیفہ حاصل کرنے کے چکر میں کئی کئی اداروں میں مختلف کورسز میں بیک وقت داخلے لیے۔  یوں بظاہر کورسز مکمل بھی ہوئے، سرٹیفیکیٹ بھی مل گئے، لیکن نہ ملی  تو  نوجوانوں کو نوکری نہ ملی –کیونکہ   فنی تعلیم کی کوالٹی پر کسی نے توجہ  ہی  نہ دی۔ نجی اداروں   کے پاس یہ کورسزز کروانے کے لیےنہ تو تربیت یافتہ  سٹاف تھا  اور نہ ہی سہولتیں۔  صرف حاضری لگائی جاتی  اور اگر کوئی کلاس ہوئ بھی  تو انٹرنیٹ سے نوٹس کاپی کر کے طلبہ کو دیے گئے۔

پریکٹیکل  جو  ہنر سیکھنے کیلیے بے انتہا  ضروری ہوتے ہیں  ان  کا تو کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بےشمار حکومتی سرمایہ  خرچ ہونے  کے باوجود طلبہ نہ تو  ہنر   سیکھ سکے  اور نہ ہی نوکری حاصل کر سکے۔

موجودہ حکومت اور روزگار

موجودہ حکومت کو چاہیے کہ گزشتہ حکومتوں کی ناکامی سے سبق سیکھتے ہوۓ   نوجوانوں کے روزگارکے فوری اور

 مؤثر پروگرام بناۓ ۔ وہ ماضی کی  غلطیاں نہ دہراۓ –  تعلیم کی اہمیت اور عظمت کو روزگار کی گارنٹی کے ذریعے

  – بحال کرے 

فنی تعلیم کے تمام ادارو ں کی کارگردگی ، سٹاف اور   پریکٹیکل  کی سہولیات کا ازسرنو جائزہ    لے کرغیر معیاری 

اداروں  کی رجسٹریشن  ختم کر دے – اور معیاری درسگاہوں سے تعلیم یافتہ ہنر مند نوجوانوں کو  پہلے اپرنٹس شپ اور پھر متعلقہ  اداروں میں نوکری فراہم کی جاۓ۔  

اظہر اقبال بٹ ملازمت پیشہ شخصیت  ہیں اور منڈی بہاؤدین  پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں  

Pic Credit : ٖFeature Image – Degree: Pixabay on Pixels. Mechanic Pic: Adi Goldstein on Unsplash. Gentleman pic: Andrea Natali on Unsplash .

For Comments please write to crvoices@gmail.com. If you like the blog please forward its link to your contacts and share/tweet on facebook and twitter.

If you or any of your contacts wish to write for CRVOICES please send an email to crvoices@gmail.com. We encourage and guide to express your achievements, successes and challenges. However, the final decision to publish a blog rests solely with CRVOICES.

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here