تحریر مہوش مجید
میں عورتوں کے حقوق کی بہت بڑ ی علمبردار تو نہیں ہوں لیکن اس معاشرے میں نا انصافی والے رویّوں سے رنجیدہ ضرور ہوں۔
زندگی میں نا انصا فی والے رویّے ہمیں ہمیشہ ناگوار لگتے ہیں ۔ لیکن چاہنے کے باوجود بھی ان سے جان چھڑانا مشکل لگتا ہے۔ کسی نہ کسی مقام پہ ہر انسان اپنی زندگی میں بےبس ہوتا ہےلیکن میں نے آج تک سب سے زیادہ بےبس عورت کو ہی دیکھا ہے- مجھے ہرطبقے سے تعلق رکھنے والی عورت ہی بےبس لگتی ہے چاہے وہ دیہات کی ان پڑھ عورت ہو یا پھر ایک اعلیٰ یونیورسٹی کی پڑھی ہوئی عورت۔
حالات سے سمجھوتہ کرنے والی بےبس دیہاتی عورت اپنی پوری زندگی کبھی غربت کی چکی میں پستی ر ہتی ہے اور کبھی اسے رسوم و رواج کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے- افسوس کی بات یہ ہے کہ اکثر انھیں اپنے حالات بدلنے کا خیال بھی نہیں آتا- مجھے ایک لڑکی کی بےبسی تب محسوس ھوتی ہے جب وہ اپنے خوابوں کے ٹوٹنے پہ سب سے چھپ کر چپکے چپکے رو رہی ہوتی ہے۔ ظلم صرف جسمانی تشدد نہیں ہوتا وہ رویے بھی ظلم ہیں جو ایک جیتی جاگتی عورت کی آنکھوں سےآگے بڑھنےکا خواب نوچ لیتے ہیں ۔وہ بھی صرف اس لیے کیوں کہ وہ ایک عورت ہے ۔
ایک عورت تب بھی معاشرے کے نا انصافی والے رویّےکی بھینٹ چڑہتی ہے جب اسکا بھائی اسے اس لیے مارتا پیٹتا ہے کیوں کہ وہ گھر سے باہر پڑھنے جاتی ہےتو لوگوں کی گندی نظریں اسکا تعاقب کرتی ہیں اور بھائی کی غیرت یہ گوارا نہیں کرتی- سوچنے کی بات یہ ہے کہ گندی نظریں ڈالنے والے تو مرد ہوں لیکن سزا عورت کو ملے۔ یہی نا انصافی ہے ۔ بھائی باہر جا کر ان مردوں کو کیوں نہیں سمجھا تے جو عورتوں کو گندی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ بے غیرت تو وہ مرد ہیں جو عورتوں کو گندی نظروں سے دیکھتے ہیں لیکن غیرت کا شکار عورت کو بنا دیا جاتا ہے۔ یہی نا انصافی ہے۔
اگر آپ مجھ سے اتفا ق کرنے والی عورت ہیں تو اس بات کو آگے بڑھا ئیں اور اگر آپ مجھ سے اتفاق کرنے والے مرد ہیں تو خدا را نا انصافی والے رو یّوں کو ختم کرنے کیلیے آگے بڑھیں – تا کہ ہم سب عو رتوں کیساتھ ناانصافی کے خاتمے میں اپنا اپنا کردار ادا کر سکیں ۔
مس مہوش مجید چوک اعظم ، لیہ پنجاب میں ایک کسان گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں اور شعبہ تعلیم و تدریس سے بھی وابستہ ہیں