تحریر  مہوش مجید

عورت کوہمارے معا شرے میں  صنف نازک کہا جاتا ہے۔ مگر  میں  یہ نہیں ما نتی  ۔

جب میں اپنے  گا ؤں  دیہات کی عورتوں کو اونچی نیچی دشوار گذار  پگڈنڈیوں  پہ  گھاس کے  بھاری بھرکم گٹھے  اٹھاۓ ہوۓ  دیکھتی ہوں- جب  وہ تپتی  دھوپ میں   فصل کی بیجا ٰ ٰئ کر رہی ہوتی ہیں۔ گھنٹوں گھنٹوں  کھیت میں        گوڈی کرتی ہیں- پانی لگانے میں  بھی اکثر  مردوں کے شانہ  بشانہ نظر آتی ہیں۔ اور  فصل کی کٹائ ہو یا  کپاس کی چنائ کھیت  میں تو عورت ہی عورت نظر آتی  ہے، اور  پھرمویشیوں کے لیے  گدھا گاڑی   پر  لاد کر چارہ گھروں تک لانے کا کام بھی اکثر عورتیں  ہی سرانجام دیتی ہیں- اور پانی ڈھونے کی تو بات ہی رہنے دیں- گرم   سورج کے نیچے میلوں تک پیدل چل کر جانا اور دن میں کئ   کئ  مرتبہ  پانی کے   بھا ری  بھرکم گھڑے اٹھا کر لانے کا کام کون کرتا ہے؟ جی ہاں یہ کارنا مہ بھی عورت ہی انجام دیتی ہے۔  یہ سخت جان کام کیا  عورت کو صنف نازک ظاہر کرتے ہیں ؟

 یہ سلسلہ  یہیں ختم نہیں ہوتا- گھر میں   تو تقریبا”   تمام زمہ داریاں عورت  ہی کے حصے میں آتی ہیں۔ کھانا پکانا – بچوں کی دیکھ بھال –  کپڑے  دھونا ۔ گھر کی صفائ– شوہر کی دیکھ بھال     یہ سب کام عورت کو اوپر بیان کیے ہوۓ زرعی   کاموں کے ساتھ ساتھ کرنے پڑتے ہیں۔ دیہی   عورت دن رات کام میں مگن اور  اپنی ذات کو فراموش کیے  رہتی ہے۔ کیا اب بھی آپ عورت کو صنف نازک کہیں گے؟

کون کہتا ھےصنف نازک ہیں ہم

ریشم      میں  لپٹا    فولاد    ہیں ہم

 دراصل عورت ہمارے معاشرے کا وہ حصہ ہے جس کے کام کو ،جس کی خدمات کو تسلیم ہی نہیں کیا جاتا- کھیتوں میں صبح شام سخت محنت کے باوجود اسے کسان تسلیم نہیں کیا جاتا- اور  دن رات  گھر میں کام کرنے کے باوجود وہ  عزت احترام  نہیں ملتا  جسکی وہ حقدار ہے اور سب سے بڑھ کر  یہ کہ وہ اپنے بہت سے حقوق سے محروم ہے۔   

یہاں بات اس عورت کی بھی ہو رہی ہے  جو  اعلٰی تعلیم یافتہ  ہے  اور اپنی قابلیت کے مطابق زراعت کے علاوہ دیگر  شعبوں میں بھی مردوں کے شانہ بشانہ کام  کر رہی ہے ۔ وہ اگر اپنے حقوق سے واقف ہے ،تب بھی انہیں حاصل کرنے  سے محروم ہے۔ ۔مجھے بہت افسوس کے ساتھ یہ  لکھنا پڑرھا ہے کہ ایک اسلامی ملک ہونے کے باوجود ہمارا معاشرہ عورت کو تحفظ دینے میں ناکام ہے ۔  عورتوں کا عالمی دن دھوم دھام سے مناۓجانے  کے باوجود ابھی تک عورت  اپنےبہت سے  بنیادی حقوق سے محروم ہے                  

 میں ایسے معاشرے میں رہ رہی ہوں جہاں مرد ایک حاکم ہے  اور عورت مظلوم  ۔ کبھی وہ رسوم و رواج کی بھینٹ چڑھاٰدی جاتی ہے اور کبھی   باپ  بھائیوں کی عزت و غیرت کے نام پہ قربان کر دی جاتی ہے ۔ اگر وہ اپنی مرضی سے کوئ نیا اور اچھا کام کرنا چاہے تو  اس  کی تمام خوشیاں اور خواہشیں چار الفاظ کی بھینٹ چڑھا دی جاتی ہیں۔  

                                                                                “لوگ کیا کہیں گے”

     مس مہوش  مجید چوک اعظم ،  لیہ پنجاب  میں ایک کسان گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں اور شعبہ تعلیم و تدریس سے بھی وابستہ ہیں۔