تحریرـ طارق محمود  کسان –  چشتیاں ضلع  بہاولنگر  پنجاب

 گذشتہ  ہفتے  کے  بلاگ  میں آپ نے پڑھا کہ گندم کی فروخت میں چھوٹے  کسان  کو  باردانہ  (گندم  پیک کرنے کی بوری) کتنی مشکلات

کے بعد  حاصل ہوتا ہے۔ آج میں اس  کے بعد کی  مشکلات کا ذکر کرتا ہوں۔

جو باہمّت کسان  بار دانہ حا صل کرنے میں  کامیاب ہو جاتے ہیں ان کے لئے اپنی گندم کو خریداری مراکز تک پہنچانا ایک اور کٹھن مرحلہ ہے. چھوٹے کسانوں کے پاس اپنی ٹریکٹرٹرالی نہیں ہوتی ہیں۔ اس لئے وہ اپنی گندم کو  خریداری مراکز تک پہنچانے کے لئے کرایے پر کوئی گاڑی حاصل کرتے ہیں. اور اس مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوے ٹریکٹر ٹرالی والے دوگنا اور تین گنا کرایا وصول کرتے ہیں.

 جب الله الله کر کے کسی طرّح کسان اپنی گندم بوریوں میں بھر کر خریداری مراکز پہنچنے میں کامیاب ہو جاتاہے تو اب وہاں کا عملہ اس کے استحصال کے لئے ہتھیار آزمانا شروع کر دیتا ہے. سب سے پہلے تو اسکی گندم کی کوالٹی کو ناقص قراردے دیا جاتا ہے۔ پھر اسکی بوری کا وزن کم دکھایا جاتا ہے اور  اگر  وہ  ‘ نذرانہ ‘ دینے کو تیار ہو جاۓ تو یہ سارے اعتراضات ختم ہو جاتے ہیں۔ اور یہ  نذرانہ بھی نقد نہیں بلکہ  گندم کی بوریوں کی صورت  میں لیا  جاتا ہے.

اس کے بعد اس گندم کی قیمت  وصول کرنے کا مرحلہ شروع ہو جاتا ہے. گندم کی فراہمی کے تقریبا”  ایک ہفتے بعد کسانوں کو انکی گندم کا ایک  واؤچر فراہم کیا جاتا ہے جس کو کسان اپنے بینک اکاؤنٹ میں جمع کروا کر اپنے اکاؤنٹ سے رقم حاصل کر سکتا ہے. آپ خود اندازہ  کر سکتے ہیں کے کتنے چھوٹے کسانوں  کے بینک اکاؤنٹ ہوں گے اور وہ اس سہولت سے کس طرح فائدہ اٹھا سکتے ہیں.

چنانچہ عام طور چھوٹے کسان گندم   سرکاری طور پر فروخت کرنے کے بجاۓ  خواری سے بچنے کے لئے اپنی گندم کھلی مارکیٹ میں بیچنے کو  مجبور ہو جاتے ہیں۔ جہاں پٹواری اونے پونے دام گندم خریدتے ہیں-  جسکی وجہ سے  کسان سرکاری امدادی قیمت حاصل نہیں  کر سکتے اور وہ   نقصا ن  پہ نقصان اٹھاتے رہتے ہیں۔

 افسوس  کہ یہ سلسلہ سال و سال سے یوں ہی چلا آ رہا ہے – نہ جانے اسے کون کس طرح اور کب حل کرے گا۔

طارق محمود، ایک چھوٹے کسان  ہو نے کے علاوہ ایڈووکیٹ بھی ہیں اور تنظیم سویرافاُٰونڈیشن  کے صدر بھی ہیں۔

  crvoices@gmail.com اپنے کمنٹس بھیجیں