[vc_row][vc_column][vc_column_text]

جنوبی پنجاب میں مارچ کے مہینےمیں موسم معمول سے زیادہ گرم ہونے، نہروں کی بندش، اور بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے گندم کی فصل معمول سے 15 دن پہلے تیارہو چکی ہے اور یکم اپریل سے گندم کی کٹائی بھی  شروع ہو چکی ہے اوراس کے ساتھ ہی کسانوں کے لیے فکرمندی کےنئےمرحلے شروع ہو رہے ہیں۔

پنجاب میں کسانوں کی اکثریت چھوٹے کسانوں کی ہے جن  کے پاس 3 سے 7 ایکڑ تک زمین ھے اور ان کی روزی روٹی کا مکمل انحصار کھیتی باڑی پر ھے۔ پنجاب میں  گندم کی فی ایکڑ پیداوار کا پچھلے پانچ سال کا جائزہ لیا جائے تو سالانہ فی ایکڑ پیداوار تقریبن تیس من کے قریب ہے جو کہ دوسرے ملکوں سی کافی کم ھے۔

اس سال پنجاب میں گندم کا زیر کاشت رقبہ تقریبا”   ایک کروڑ ستر لاکھ کے قریب ہے. اور  سرکاری طور پر گندم کی خرید کا ٹارگٹ تقریباٍٍ” چالیس لاکھ ٹن ہے  جو کے کل پیداوار کا تقریبا” بیس فیصد ہے جوکہ بہت ہی کم ہے-  کیونکہ باقی گندم  فروخت کرنے کے لیے کسان آڑھتیوں اور  بیوپاریوں کے رحم و کرم پر ہوں گے جو  اس سال بھی  چھوٹے کسانوں کا جی بھر کر استحصال کریں گے. ۔ کسان پہلے ہی بدحال اور قابل  رحم ہے اس کو اگر اس سال بھی گندم کی پوری قیمت نہ مل سکی تو وہ معاشی طور پر بالکل ہی تباہ ہو جائے گا۔

باردانہ کا حصول

سرکاری مراکز میں گندم فروخت کرنے کے لیے  پہلا مرحلہ باردانے  کا حصول ہو تا ہے- حکومت کی طرف سےگندم کے لیے  خالی بوریاں جاری کی جاتی ہیں جنھیں باردانہ کہا جاتا ہے۔اس بار 10 بوری فی ایکڑ کا اعلان ہوا ہے۔  جن میں کسان فی ایکڑ صرف پچیس  من گندم فروخت کر سکتا ہے. جبکے گندم کی فی ایکڑ پیداوار چالیس من کے قریب  ہے۔ لہٰذہ کسان بڑی مشکل سے اپنی پیداوار کا صرف پچاس فیصد حصہ سرکاری   نرخوں پر فروخت کر سکتا ہے۔  باقی پیداوار کے لئے اسے پھر کھلی مارکیٹ پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے.

باردانہ کے حصول کا عمل بہت پیچیدہ بنا دیا گیا ہے۔ باردانہ صرف انہی کسانوں کو فراہم کیا جاتا ہے جن کا نام پٹواری کے ریکارڈ (خسراگرداوری )  میں موجود ہوتا ہے. اب جو کسان اپنی زمین کے خود مالک ہیں اور تھوڑی بہت سمجھ بوجھ رکھتے ہیں وہ توپٹواری ریکارڈ (خسراگرداوری)  میں اپنا نام درج کرا لیتے ہیں۔  انھیں تو باردانہ ملنے کا امکان ہو جاتا ہے- مگر کسانوں کی ایک بڑی تعداد مستاجر یا مزارع ہے جو فصل تو کاشت کرتے ہیں مگر زمین  مالک فصل کی گرداوری مستاجر یا مزارع کے نام پر  درج نہیں ہونے دیتا. اسلئے وہ  اپنی پیداوار کے فروخت کی لئے باردانہ حاصل کرنے کے اہل نہیں رہتے-

جو کسان پٹواری ریکارڈ (خسرہ گرداوری)میں نام درج کروانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ان کے لئے ابھی اور بہت سے امتحان باقی ہیں- ہر کسان کو اپنی کاشتہ زمین کے حساب سے باردانہ کی قیمت جمع کرانا ضروری ہوتا ہے. اور بوریوں کی تعداد کے مطابق محکمہ خوراک یا پاسکو کے نام بنک پے آرڈر  بنوا کے  جمع کروانا پڑتا ہے جسکے بعد اسکو باردانہ جاری کیا جاتا ہے. اس کام کے لیے  چھوٹے کسانوں کو دو دو دن بنکوں اور خریداری کے مراکز میں خوار ہونا پڑتا ہے۔   جو کہ سادہ لوح کسانوں کے لئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے. حکومت کو چاہیے کہ باردانہ کے حصول کو  چھوٹے کسان کے حالات کے مطابق سادہ اور آسان  بناۓ

—  جاری ہے

اگلے   ہفتے  گندم خریداری کے دوسرے مرحلے کے بارے میں بلاگ پڑہیں

طارق محمود، ایک چھوٹے کسان  ہو نے کے علاوہ ایڈووکیٹ بھی ہیں اور تنظیم سویرافاُٰونڈیشن  کے صدر بھی ہیں۔

  crvoices@gmail.com اپنے کمنٹس بھیجیں

Feature image credit Tariq Mehmood.

[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row]